Qissa abbi hijaab se agey nahi barha, Main ap, abhi janab se agey nahi barha, Lekin mein pehle baab se agey nahi barha.. Muddat hui kitaab-e-mohabbat shuru kiye,
Hum bhi hon ge ap ke dil mein magar, Magar ik bhoolay huye qissay ki tarah, Kabhi jo na baant pao ge dard to yaad aonga, Hum tum jo they aik jism ke hissay ki tarah.!
Khushi ke geet gaaney ko zara si baat kaafi hai, Naseeb-e-gham bhulaaney ko zara si baat kaafi hai, Ghareeb-e-sheher ke ghar udaasi laakh rehti ho, Magar hansne hasaaney ko zara si baat kaafi hai..!
Zindagi khaak na thi, khaak urratey guzri, Tujhse kya kehtey tere pass jo Aatey guzri, Din jo guzraa to kisi ki yaad mein guzra, Shaam ayi to koi khawb dikhatey guzri.!
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ پر جب نزع کا عالم طاری ھوا تو بیٹے نے پوچھا "ابا جان! کیا حال ھے؟"آپ نے فرمایا: وقت پُرخطر ھے جواب کا موقع نہیں ھے، بس تم دعا سے میری مدد کرتے رھو، میرے دائیں بائیں جو لوگ بیٹھے ھیں ان میں شیطان بھی موجود ھے وہ سامنے کھڑا سر پر خاک ڈال کر کہہ رہا ھے کہ "اے احمد! تو میرے ہاتھ سے جان سلامت لے کر چلا گیا" اور میں کہتا ھوں کہ جب تک ایک سانس بھی باقی ھے شیطان کی گمراھی کا خطرہ موجود ھے۔اللہ اکبر۔۔!! اتنے بڑے اللہ والے کا یہ حال ھے کہ آخری وقت تک شیطان مردود سے خطرہ محسوس کر رھے ھیں کہ کہیں وہ گمراہ نہ کرے اور ایمان نہ چھین لے۔اور ایک ھم ھیں کہ اپنی ذرا سی نیکیوں پر مطمئن بیٹھے ھیں کہ بس جنت تو ھماری پکی ھے۔اللہ ھمیں نیکی کر کے اسے محفوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین
کسی یونیورسٹی کا ایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا۔ پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے۔ چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کی جوڑی پر پڑی جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے کسی غریب کسان کی لگتی تھی۔ طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا: "سر! کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے"۔ پروفیسر نے جواب دیا: "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے، تم ایک امیر لڑکے ہو اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو۔" ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے"۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے۔ غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے۔ کوٹ پہنتے ہوئے اس نے
ایک کسان اپنے مالک کے کھیت میں کام کرتے کرتے سوچنے لگا ۔۔۔ کاش کہ میں مالدار ہوتا تو میں زمین خرید لیتا جس میں میں کھیتی کرتا۔۔میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں، لذیذ کھانے کھانا چاہتا ہوں اور آرام دہ گھر میں رہنا چاہتا ہوں, اچانک کسی کی آواز سن کر وہ چونک پڑا جو اعلان کر رہا تھا کہ:" بادشاہ سلامت ان کھیتوں کے پاس والے راستے سے آئندہ ہفتے گزریں گے، اور سبھی کسانوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے استقبال اور ان کو سلام کرنے کے لئے صف بستہ ہوکر کھڑے رہیں"۔ کسان نے اپنے دل میں سوچا۔۔۔"یہی موقع ہے۔۔اگر میں نے بادشاہ سے کچھ سونے کے سکے مانگ لئے تو کیا ہوا، اس سے میرے سبھی خواب تو پورے ہو جائیں گے۔۔۔اور وہ کبھی بھی میری درخواست کو رد نہیں کریں گے اس لئے کہ جیسا کہ میں نے سنا ہے وہ اچھے اور بھلے انسان ہیں" اسی طرح کسان ہفتہ بھرخواب بنتا رہا۔۔۔آخر کار وہ دن بھی آ پہونچا۔ تمام کسان بادشاہ کے استقبال کے لئے راستے کے دونوں طرف صف بستہ کھڑے تھے۔۔۔ اچانک دور گاڑیاں دکھائی دیں جنھیں گھوڑے کھینچ رہے تھے، کسان شاہی گاڑی کی طرف دوڑ پڑا اور چلانے لگا:"اے بادشاہ۔۔ اے بادشاہ۔۔ م
بہت عرصہ پہلے ایک جگہ سیب کا ایک بہت بڑا درخت تھا ور روزانہ ایک بچہ وہاں آکر اُس درخت کے اِرد گِرد کھیلا کرتا تھا وہ بچہ اس درخت کی ٹہنیوں سے چمٹ چمٹ کر اس کی چوٹی پر چڑہتا اس کے سیب کھاتا اور تھک کر اس کے سایے کے نیچے لیٹ کر مزے سے اونگھتا وہ بچہ اس درخت سے محبت کرتا تھا اوروہ درخت بھی اس سے محبت کرتا تھا اور اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ وقت گذرا اور بچہ بڑا ہو گیا اور پھر بچہ ہر روز درخت کے ارد گِرد نہیں کھیلتا تھا ایک دن بچہ واپس آ گیا لیکن وہ دُکھی تھا، درخت نے کہا آؤ میرے ساتھ کھیلو، بچے نے جواب دیا میں اب اتنا چھوٹا نہیں رہا کہ درختوں کے اِرد گِرد کھیلوں مجھے کھلونے چاہیں ، اور کھلونے خریدنے کے لیے مجھے پیسے چاہیں، درخت نے کہا """ میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں """ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ تُم میرے سارے کے سارے سیب لے لو اور انہیں بیچ دو تاکہ تُمہیں پیسے مل جائیں بچہ بہت ہی خوش ہو گیا بچہ درخت پر چڑھا اور سارے سیب توڑ لیے اورخوشی خوشی وہاں سے چلا گیادرخت نے اپنے سارے پھل کھو دیے لیکن اُس کی خُوشی سے بہت ہی کم تھا وہ خُوشی جو اُسے بچے کی خُوشی دیکھ کر ہوئ